RegionalPosted at: Nov 29 2022 5:55PM بیلگاوی کی عدالت نے سنجے راوت کو 'نفرت انگیز تقریر' کے لیے طلب کیا

بیلگاوی (کرناٹک)، 29 نومبر (یو این آئی) بیلگاوی کی ایک عدالت نے مہاراشٹرا-کرناٹک سرحدی تنازعہ کے درمیان شیوسینا (ادھو ٹھاکرے دھڑے) کے راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ سنجے راوت کو اشتعال انگیز تقریر کے لئے طلب کیا ہے عدالت نے انہیں یکم دسمبر کو طلب کیا ہے مسٹر راوت نے مبینہ طور پر 30 مارچ 2018 کو کہا تھا کہ ' گر کرناٹک کے لوگ ایک کو نقصان پہنچاتے ہیں تو شیو سینا میں کرناٹک کی 100 بسوں کو نقصان پہنچانے کی ہمت ہے ا'۔
انہوں نے جمہوریت پر ہجوم پرستی کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی سرحدی مسائل پر مہاراشٹرا انٹیگریشن کمیٹی (ایم ای ایس) کے ساتھ کھڑی رہیگی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر، کاویری اور بیلگام، کاروار اور سرحدی مسائل اس ملک میں حل طلب ہیں۔
مسٹر راوت نے کہا، "جمہوری طریقے سے الیکشن لڑنے اور جیتنے کے باوجود، اگر جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے، تو شیوسینا کے سپریمو نے کہا ہے کہ ہجوم کی سیاست کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ کرناٹک میں شیوسینا اسمبلی انتخابات لڑے گی، لیکن سرحدی علاقوں میں ہم ایم ای ایس کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
سمن پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسٹر راوت نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ ان پر حملہ کیا جائے گا اور انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، “عدالت نے مجھے 2018 کی تقریر پر عدالت میں حاضر ہونے کے لئے کہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے عدالت جانا چاہیے اور مجھ پر حملہ ہو گا۔ یہ میری معلومات ہے۔ مجھے وہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومئی نے کہا کہ موجودہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب ریاست مہاراشٹر کے جاٹ تعلقہ کے کچھ گاؤں کی طرف سے کرناٹک میں ضم ہونے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔
اس بیان پر جوابی حملی کرتے ہوئے مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے کہا کہ ان گاؤں کو کرناٹک کے حوالے کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جواب میں مسٹر بومئی نے اسے 'اشتعال انگیز' تبصرہ قرار دیا اور مہاراشٹر کے کنڑ بولنے والے علاقوں کے لئے دعویٰ کیا۔
خیال ر ہے کہ مسٹر بومئی اور فڑنویس دونوں ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر ہیں۔ مہاجن کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر مراٹھی اور کنڑ بولنے والے علاقوں کی شمولیت اور باہر کرنے پر کرناٹک اور مہاراشٹر کے درمیان ایک طویل عرصے سے زیر التوا مسئلہ ہے۔
یواین آئی۔ م ع۔ 1600